تازہ جڑ ادرک کہلاتی ہے اور خشک کو سونٹھ کہتے ہیں ۔ یورپ میں ادرک کا استعمال زیادہ تر بحری ملاح کرتے تھے۔ اس کا مربہ سمندری سفر کے دوران ہونے والی متلی، چکر وغیرہ کے لیے مفید سمجھا جاتا تھا۔ ادرک میں اکتیس فیصد ہلکے زرد رنگ کا فراری تیل(VOLATILE OIL) پایا جاتا ہے۔ اس کے پھولوں میں بھی اس کی مخصوص خوشبو ہوتی ہے۔ تاہم جڑ ہی پھول اور تنے سے زیادہ خوشبودار اور پرتاثیر ہوتی ہے۔ یہ خوشبو تیز اور مرچ کی طرح چرپری ہوتی ہے۔
ادرک کے کیمیائی تجزیے کے مطابق اس میں فراری تیل کے علاوہ تیز تلخ رال، گوند، نشاستہ، ریشہ یا چوبی مادہ‘ ایسٹک ایسڈ، ایسا میزون، ایسی ٹیٹ آف پوٹاش، گندھک وغیرہ ہوتے ہیں۔ طبی اور دوائی اعتبار سے ادرک اہم مقام رکھتی ہے۔ یہ ہاضے کی قوت کو تیز کرتی ہے، ریاح خارج کرتی ہے، اسی لیے اسے اکثر امراض معدہ میں استعمال کرتے ہیں۔ یہ خاص طور پر شراب نوشی کی وجہ سے ہونے والی ہضم کی خرابیوں کو دور کرنے میں بہت مفید ثابت ہوتی ہے۔
ادرک بلغمی مزاج والوں کے لیے بہت مفید ہوتی ہے۔ مرض سنگرہنی (SPRUE)میں اسے پورے اعتماد کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس مرض میں آنتیں بہت کمزور ہوجاتی ہیں، ان کی دیوار پتلی پڑجاتی ہے اور ان پر کہیں کہیں سطحی زخم بھی بن جاتے ہیں۔ اس مرض میں سونٹھ کو گھی میںسرخ کرکے اس کا سفوف ایک دو گرام چھاچھ کے ساتھ دن میں دو تین بار کھلانا مفید ہوتا ہے۔
ادرک غذا کی اصلاح کرتی ہے۔ ثقیل غذائوں مثلاً اُرد کی دال، گوبھی کے ساتھ اسے شامل کرنے سے یہ آسانی سے ہضم ہو جاتی ہے اور ان کا بادی پن دور ہو جاتا ہے۔
ادرک کو چھیل کر چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے نمک چھڑک کر کھانے سے بھوک کھل کر لگتی ہے۔ پیٹ میں بھرے ریاح خارج ہو جاتے ہیں اور قبض بھی دور ہوجاتا ہے۔ اس کا تیل گنٹھیا اور سردی کے دردوں کے لیے مفید ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں